"ادب" عربی زبان کا لفظ ہے۔

اس کی اصل عربی مادہ أَدَبَ (ادَبَ) سے ہے، جس کے معنی ہیں:

> "بلانا، جمع کرنا، کسی کو کسی اچھے کام کی طرف متوجہ کرنا۔"

ابتدا میں "ادب" کا مطلب تھا

> "مہمانوں کے لیے کھانا اکٹھا کرنا یا ان کی ضیافت کرنا۔"

بعد میں یہی لفظ آہستہ آہستہ اخلاق، تہذیب، شائستگی اور حسنِ گفتار و کردار کے معنوں میں استعمال ہونے لگا۔

 اصطلاحی معنی:

وقت کے ساتھ ادب نے کئی جہتیں اختیار کیں:

1. تہذیبی معنی میں:

ادب کا مطلب ہے شائستگی، تمیز، احترام، باوقار طرزِ گفتگو اور مہذب رویّہ۔

جیسے کہا جاتا ہے:

> “ادب سے پیش آنا”، “ادب سے بات کرنا”، “ادب کا لحاظ رکھنا”۔

2. علمی و فکری معنی میں:

ادب ایک ایسا فن ہے جو انسانی جذبات، خیالات اور تجربات کو خوبصورت انداز میں بیان کرتا ہے —

چاہے وہ نثر کی صورت میں ہو یا نظم کی۔

یعنی شاعری، افسانہ، ناول، ڈراما، انشائیہ، مضمون وغیرہ سب "ادب" کے دائرے میں آتے ہیں۔

3. روحانی معنی میں:

صوفیانہ زبان میں ادب کا مطلب ہے

> “ہر چیز کو اس کے مقام پر رکھنا”

اور

“اپنے سے بڑے کا احترام کرنا، چھوٹے پر شفقت کرنا، اور اللہ کے حضور عاجزی اختیار کرنا۔”

جیسے کہا جاتا ہے:

ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں ادب کے اقسام

 (Types of Adab):

1. ادبِ گفتار: بات کرنے میں شائستگی

2. ادبِ رفتار: چلنے، اٹھنے بیٹھنے میں وقار

3. ادبِ نظر: نگاہوں میں حیا اور احترام

4. ادبِ دل: بڑوں، اساتذہ، والدین، اور اللہ کے حضور عاجزی

5. ادبِ قلم: لکھنے میں سلیقہ، خوبصورتی اور معنی کی گہرائی

 ادب اور علم کا تعلق:


علم انسان کو سمجھ دیتا ہے،

مگر ادب اسے حُسنِ عمل سکھاتا ہے۔

علم روشنی ہے، مگر ادب اس روشنی کو نرمی اور روشنیِ دل میں بدل دیتا ہے۔

اسی لیے کہا گیا ہے:


> "جس کے پاس علم ہے مگر ادب نہیں، وہ جلتی ہوئی شمع ہے جس کے قریب آنا خطرناک ہے۔"

چند اقوالِ زریں:

حضرت علیؓ:

“ادب عقل کی زینت ہے۔”


امام غزالیؒ:

“ادب کے بغیر علم وبال ہے، اور علم کے بغیر ادب ضائع۔”


علامہ اقبالؒ:

“ادب دلوں کو نرم کرتا ہے اور انسان کو انسان بناتا ہے۔”