یادوں کے دریچوں میں جھانکتے ہوئے اشفاق احمد لکھتے ہیں:
ایک بار میرے مرشد، حضرت سائیں فضل شاہ صاحب، گوجرانوالہ تشریف لے گئے۔
راقم الحروف بھی اس سفرِ باصفا میں ہمراہ تھا۔
دن بھر کی مسافت و مصروفیت کے بعد شام ڈھلے واپسی کا قصد کیا۔ بازار کے ایک گوشے میں، ایک گداز لہجے والا فقیر، دستِ سوال دراز کیے بابا جی کے روبرو ہوا،
اور عرض کی:
"کچھ دے، اللہ کے نام پر۔"
بابا جی نے جیب سے ایک روپیہ نکالا۔۔۔
جو اس وقت ایک بڑی رقم تصور ہوتی تھی
اور خاموشی سے فقیر کے کشکول میں ڈال دیا۔
فقیر کے چہرے پر خوشی کا ایک ہلکا سا اُجالا پھیل گیا، اس نے محبت و اخلاص سے دعائیں دیں، اور دل سے بابا جی کو پسند کیا۔
بابا جی نے نرمی سے پوچھا:
"شام ہو گئی اے، آج کتنے پیسے بنائے؟"
فقیر ایک سچا اور صاف گو شخص تھا، بولا:
"بابا جی، دس روپے کما لیے۔"
بابا جی نے سن کر تبسم فرمایا، اور ارشاد کیا:
"تو پھر، اب کچھ دے بھی، دینا سیکھ، یہ تو لینے کی عادت ہو گئی!"
فقیر جھجھک کر گویا ہوا:
"بابا جی، میں فقیر آدمی ہوں، میں کیا دوں؟"
بابا جی کی آواز میں درد بھی تھا، درس بھی:
"اس میں فقیر امیر کا کوئی سوال نہیں جس کے پاس ہے اس کو دینا چاہئے۔"
وہاں قریب سے دو مزدور کدالیں کندھے پر ڈالے گھر واپس جا رہے تھے۔
وہ ایک لحظہ ٹھٹکا، پھر اچانک لپک کر بازار کی سمت دوڑا۔
چار روپے کی جلیبیاں خریدیں (جو اُس زمانے میں ایک کلو بنتی تھیں)، اور وہاں سے گزرتے دو مزدوروں کو روک کر کہا:
"لو بھائی، آدھی آدھی بانٹ لینا!"
مزدور پہلے تو حیران ہوئے، پھر خوشی سے جھومتے، شکریہ ادا کرتے رخصت ہوئے۔ فقیر کچھ متحیر، کچھ شرمندہ سا لوٹ آیا۔
وہ عمر بھر مانگنے والا تھا، آج پہلی بار اس نے کسی کو اپنی ذات سے کچھ دیا تھا۔ جیسے خود پر بھی یقین نہ آ رہا ہو۔
بابا جی نے تب ہنستے ہوئے پکارا:
"اوئے لکیّا، کتھے جا ریا ایں؟ تینوں فقیر توں داتا بنا دتا اے! خوش ہو، نچ کے ویکھا!"
تو فقیر سے جب داتا بنتا ہے نا، تواس کا رتبہ بلند ہو جاتا ہے، تو باہر نہیں تو اس کا اندر ضرور ناچنے لگتا ہے

