از قلم :  Ausaf Arham
 بہ ترمیم و تزئین از : صوفی بھائی

ایک عہدِ قدیم کا قصہ ہے
       جب سلطنتوں کا جاہ و جلال، درباروں کی شان و شوکت اور درباریوں کی فہم و فراست اپنا عروج پا رہے تھے۔
اسی عالم میں ایک اجنبی شخص شاہی دربار میں نوکری کی عرضی لیے حاضر ہوا۔

بادشاہ نے دریافت کیا:
        ارے میاں، تمھاری مہارت کس فن میں ہے؟

اجنبی نے مودبانہ عرض کیا:
حضور! بندہ ایک سیاسی آدمی ہے۔

اب سُنئے!
               اس وقت سیاسی سے مراد وہ چالاکی نہیں جو آج کل سیاسی چہروں پر سجی ہوتی ہے،
 بلکہ عربی لغت کے مطابق "سیاسی" وہ ہے جو تدبر، معاملہ فہمی، فطری فراست اور افہام و تفہیم کا پیکر ہو۔

مگر دربار تو پہلے ہی "سیاست دانوں" سے لبریز تھا، چنانچہ بادشاہ نے قدرے غیرمتوقع طور پر اُسے شاہی اصطبل کا انچارج مقرر فرمایا، جہاں کے پرانے نگران کا حال ہی میں وصال ہو چکا تھا۔

چند ہی دنوں بعد بادشاہ سلامت نے اپنے محبوب اور نہایت قیمتی گھوڑے کی بابت دریافت کیا۔

مصاحبِ اصطبل نے عرض کی:
              حضور والا! یہ گھوڑا اصیل نہیں ہے!

بادشاہ کے چہرے پر حیرت کی پرچھائیاں دوڑ گئیں۔

فوراً جنگل سے پرانے سائیس کو بلوایا گیا، جس نے تصدیق کی کہ:
            گھوڑا تو اصیل ہی ہے، مگر اس کی ماں زچگی کے دوران مر گئی تھی، یہ بچپن میں ایک گائے کا دودھ پی کر پلا بڑھا۔

بادشاہ نے حیرت سے پوچھا:
            بھلا تمہیں کیسے علم ہوا کہ یہ اصیل نہیں؟

مصاحب نے عرض کیا:
                     حضور، جب یہ گھاس کھاتا ہے تو گردن نیچی کر کے گائے کی مانند کھاتا ہے،
جبکہ اصیل گھوڑے کا انداز یہ ہوتا ہے کہ گھاس منہ میں لے کر گردن اُٹھا لیتا ہے!

بادشاہ سلامت یہ سن کر حیرت کی گہرائیوں میں ڈوب گئے اور فہم کی بلندیوں تک پہنچ گئے۔

         فوراً مصاحب کے لیے انعامات کا تانتا باندھ دیا 
آٹا، گھی، بھنے دنبے، پرندوں کا گوشت — اور ساتھ ہی اُسے ملکہ کے محل میں خادم خاص مقرر فرما دیا۔


کچھ ایّام کے بعد بادشاہ نے ازراہِ دل چسپی اپنی ملکہ کے اطوار کے متعلق مصاحب سے رائے طلب کی۔

مصاحب نے مودب ہو کر عرض کیا:
             طور و طرز تو شاہی ہے، مگر معذرت کے ساتھ... یہ شہزادی نہیں ہیں!

بادشاہ کا دل دھک سے رہ گیا۔
فوراً ساس صاحبہ کو طلب کیا گیا،
      اور جب معاملہ گوش گزار کیا گیا تو اُن کی آنکھیں بھیگی، لہجہ نم ہو گیا۔

فرمایا:
          حضور، آپ کے والد نے ہماری بیٹی کی پیدائش پر ہی رشتہ طے کر لیا تھا،
      مگر وہ بچی چھے ماہ میں اس دارِ فانی سے رخصت ہو گئی۔
سلطنتی رشتے کو باقی رکھنے کی نیت سے ہم نے ایک عام بچی کو شہزادی بنا کر پالا۔

بادشاہ نے مصاحب سے حیرت و استعجاب سے پوچھا:
           تمہیں اس راز کا علم کیسے ہوا؟

مصاحب نے دھیرے سے عرض کی:
          ملکہ کا خادموں سے سلوک شاہی نہ تھا...
جیسے کوئی ان پڑھ، جاہل خاتون، خادموں پر رعب جھاڑتی ہو، ویسا ہی سلوک نظر آیا۔
جبکہ اصلی شہزادیوں کے لہجے میں تحکم ضرور ہوتا ہے،
مگر اُس میں تمیز، رحم، اور وضعداری کی چاشنی بھی شامل ہوتی ہے۔

بادشاہ سلامت نے ایک بار پھر اس فراست پر نثار ہو کر اناج، بکریاں، اعلیٰ خوردنی اشیاء بخشیں
اور دربارِ خاص میں اُسے ایک معزز منصب پر فائز فرما دیا۔


کچھ ماہ بعد، بادشاہ سلامت نے اس مصاحب کو بلوا کر کہا:
           اب ذرا اپنی بابت کچھ فرماؤ۔

مصاحب نے جھک کر کہا:
      حضور! اگر جان بخشی کی ضمانت ملے تو سچ عرض کروں؟
فرمایا: جان بخشی طے ہے!

تب مصاحب نے نہایت سنجیدگی سے کہا:
            نہ تو آپ بادشاہ زادے معلوم ہوتے ہیں،
نہ آپ کا چلن، لب و لہجہ، اور عنایات بادشاہوں جیسے ہیں!

یہ سننا تھا کہ بادشاہ کا چہرہ سرخ ہو گیا،
مگر قسم دے چکے تھے، لہٰذا سیدھا والدہ محترمہ کے محل کی راہ لی۔

انھوں نے نرمی سے سر جھکا کر فرمایا:
              ہاں بیٹا، یہ صداقت ہے۔ تمہیں ہم نے ایک چرواہے سے لے کر پالا۔
ہم بے اولاد تھے، اور تمہیں اپنی اولاد بنایا۔

بادشاہ نے اپنے عقلمند مصاحب کو بلوا کر دریافت کیا:
               یہ راز تم نے کیسے جانا؟

مصاحب نے ہلکا سا تبسم کیا اور کہا:
            حضور! جب بادشاہ انعام دیتے ہیں تو ہیرے، جواہرات، چاندی سونا عنایت فرماتے ہیں...
مگر آپ ہمیشہ گھی، بھیڑ، دنبے، اور خورد و نوش کا سامان دیتے ہیں!
یہ انعام دینے کا انداز چرواہوں کا ہوتا ہے، شاہی خاندان کا نہیں!


عادتیں نسلوں کا پتہ دیتی ہیں!
طرزِ گفتار، رویہ، سلوک، اور اطوار،
                    یہ سب وہ آئینے ہیں جن میں خون، خاندانی ورثہ، اور تربیت کی جھلک صاف دیکھی جا سکتی ہے۔

یہ محض ایک کہانی نہیں،
بلکہ نسل، علم، تربیت اور شائستگی کے معیار کا ایک آئینہ ہے۔

خون کا اثر چہرے پر نہیں، کردار پر ظاہر ہوتا ہے۔
اور کردار کبھی جھوٹ نہیں بولتا۔