حضرتِ استاد نے اہلِ درسگاہ کو اشکبار کر دیا اور نہایت متانت و وقار کے ساتھ ارشاد فرمایا
اے نوخیزانِ علم و حلم! والدِ ماجد کی دعا کے بغیر معارجِ ترقی طے کرنا محض خام خیالی ہے، کہ یہ وہ سراجِ منیر ہے جو حیاتِ انسانی کے ظلمت کدے میں چراغِ راہ بنتا ہے۔
اگر تم تمکین و رفعت کے طلبگار ہو تو والدین کی خدمت کو شعارِ زندگی بناؤ، ان کے آستانے پر جبینِ نیاز جھکاؤ، ان کی توقیر و تعظیم کو حرزِ جاں بناؤ، تب ہی سعادت و خوش بختی تمہارے قدم چومے گی۔
خبردار! کسی آوارہ خو، مسکین الفکر، نشہ باز کم نصیب کو اپنا مقتدا نہ بناؤ، کہ یہ ذلت و ادبار کی کھائی میں لے جانے والے خارزار ہیں۔
بلکہ اپنے والدِ بزرگوار ہی کو اپنا قبلۂ نظر مانو کہ عز و شرف کی معراج اسی میں مضمر ہے۔
اے اربابِ شعور! اس بیان کو بہ بصیرتِ تمام سماعت میں لاؤ، اسے چراغ در چراغ عام کرو کہ اس میں تمہارے لیے اجرِ غیر متناہی مضمر ہے۔