آج صبح کی تنہائی میں، جب دل کی ویرانی چپکے سے چائے کے پیالے میں جھانکنے لگی، میں نے وہ پیالی میز پر رکھ دی کہ کچھ لمحوں بعد پیوں گا — کہ وہ زیادہ گرم نہ رہے، کچھ ٹھنڈی ہو جائے۔ مگر تقدیر کا کھیل دیکھئے کہ پلکیں جھپکیں نہیں تھیں کہ نیند کی نازک چادر نے مجھ پر سایہ کر دیا۔

جب آنکھ کھلی، سورج ڈھل چکا تھا اور چائے اپنی حرارتِ وصل کھو بیٹھی تھی۔ سرد، بے ذائقہ، مگر گواہ— ہاں، گواہ اُس محبت کی جو کبھی چائے کی خوشبو میں بسی تھی۔

یاد آیا، اُسے ٹھنڈی چائے مرغوب تھی، اور مجھے دہکتے لبوں سے چھلکتی گرم چائے پسند تھی۔ وہ ہنستے ہوئے کہتی،
"تم تو ہمیشہ جوش مارتے ہو جیسے یہ چائے نہیں کوئی بغاوت ہو تمہارے ہاتھوں میں، میں تمہیں بدل دوں گی!"

اور میں چائے کی چسکی کے ساتھ کہتا:
"عادتیں وہی بدلتا ہے جو بے پناہ محبت کرتا ہے۔ اگر تمہیں مجھ سے عشق ہوا، تو تم بھی یہ کھولتی چائے اپناؤ گی۔ اور اگر میں دل سے تمہارا ہوگیا، تو عہد کرتا ہوں، زندگی بھر چائے ٹھنڈی کرکے پیوں گا!"

وہ مسکراہٹ سے سر ہلاتی، جیسے میری بےوقوفی پر محبت نچھاور کر رہی ہو۔
مگر پھر وقت نے کروٹ لی، اور محبت کو مقدر کے رستے سے ہٹا کر، رسم و رواج کی سنگلاخ گلیوں میں بھٹکا دیا۔ اُس نے شادی کرلی— اور گویا میری دنیا کو ماتم کا کفن اوڑھا دیا۔

اب میں اپنی زندگی نہیں جیتا، اُس کی یادوں میں سانس لیتا ہوں۔ اُس کی مسکراہٹ، اُس کی باتیں، ہر لمحہ چائے کی بھاپ میں لپٹی نظر آتی ہیں۔ برسوں سے میں چائے ٹھنڈی کر کے پیتا ہوں، شاید اپنی شکست کا ذائقہ ہر گھونٹ میں محسوس کرتا ہوں۔

اور آج…
آج میں نے دو ساعتوں سے بھی زیادہ پرانی، بےرنگ، بےمزا، سرد چائے کو بھی یوں ہی چپ چاپ پی لیا۔
جیسے اپنے نصیب کا زہر چپ چاپ پی لیا ہو…