آج کل ایک نیا ٹرینڈ گردش میں ہے کہ عورت کو مظلوم ترین بنا کے دکھایا جائے، جس میں عجیب و غریب کہانیوں کی زور داری کی جا رہی ہے، جیسے کہ گھر کے کام کرنا، بچوں کی دیکھ بھال اور ان کی پرورش، جو معمولاً عورتوں کی ذمہ داریاں مانی جاتی ہیں۔ اس سے پہلے جب سے انسان وجود میں آیا ہے، قدرت نے مرد اور عورت کو مختلف دائرہ کار مقرر کیے ہیں، مثلاً گھر کی دیکھ بھال عورت کی ذمہ داری ہے، جبکہ باہر جانا اور روزمرہ کی معاشی ذمہ داری مرد کی ہوتی ہے۔
مگر اس دور میں، افکار اور ترجیحات بہت بدل گئے ہیں۔ عورت کو گھر سے باہر نکلنے اور کام کرنے کی طرف راغب کیا جا رہا ہے، جبکہ مرد کو بھی گھریلو ذمہ داریوں کو انجام دینے کی سمجھ دی جا رہی ہے۔ اس سوشل میڈیا کی بڑی حمایت ہے، جو اس نئے تبدیلی کو فروغ دی رہی ہے۔
لیکن کیا یہ تبدیلی واقعی مردوں کے لیے ہے یا صرف سرمایہ داروں کے مفادات کے لیے؟ کیا مرد اتنا نکما ہو چکا ہے کہ بغیر بیوی، بیٹی کے کماۓ، ان کا گھر نہیں چل سکتا؟
ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ گھریلو ذمہ داریاں عورتوں کی معاشی استقلال کے لیے بھی اہم ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ مردوں کو اپنی ذمہ داریاں بھول جانے چاہیے۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہر شخص کو اپنی ذمہ داریوں کا حساب دینا چاہیے، چاہے وہ عورت ہو یا مرد۔ انصاف کا معیار ہماری معاشرتی سوچ کے تبدیل ہونے سے پہلے بڑھانا ہوگا۔ اس طرح ہم سب کو اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی توفیق ملے گی۔