برطانیہ کے زیر حکومت دور میں ہندوستان میں انگریز افسران کی حکومت کا شکایت نہ کرنا ممکن نہیں تھا۔ ایک دلچسپ واقعہ جس میں ایک انگریز خاتون نے اپنے تجربات کی تصویر کشی کی، اس طرح کی رجحانیت کو بیان کرتا ہے جو افسران کی آنکھوں سامنے نہیں آتی تھی۔

یہ خاتون، جس کا شوہر برطانوی سول سروس کا ایک اہم افسر تھا، خود بھی مختلف علاقوں میں ان کے ساتھ رہتے ہوئے ہندوستانی زندگی کا مطالعہ کیا۔ ان کی کتاب میں ان کا تجربہ بہت خوبصورت اور موثر طریقے سے بیان کیا گیا ہے۔

ان کی کتاب میں انہوں نے اپنے زندگی کے کچھ حالات اور انگریز افسران کی روایات بیان کی ہیں۔ ان کی محدودیتوں اور عدم اختیار کی وضاحت کی گئی ہے جو انگلینڈ واپس آکر بھی محسوس ہوتی تھی۔

واضح ہوتا ہے کہ برطانوی راج میں انگریز افسران کو واپس انگلینڈ جاتے ہوئے بھی کسی بھی قسم کی پبلک پوسٹ کی ذمہ داری نہیں دی جاتی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کو اپنی غلامی کی حقیقت سامنے آ جاتی تھی، جس سے ان کے اطوار اور رویے میں تبدیلی آ گئی تھی۔ ان کو ایسی ذمہ داریاں دینا خطرناک ثابت ہوتا کہ وہ خود کو بھی غلام سمجھ کر ڈیل کر لیتے۔

یہ واقعہ نہایت دلچسپ ہے جو برطانوی راج کے دوران ہندوستان میں انگریز حکومت کے نظام کی انتہائیت اور محدودیتوں کو ظاہر کرتا ہے۔ اس کے علاوہ، یہ ایک اہم پیغام بھی ہے کہ حکومتی افسران کو اپنی انا کی تسکین کے لیے عوام کو ذلیل نہ کیا جائے۔



واقعہ کا انجام یہ ہوا کہ خاتون نے اپنی بیٹے کی زندگی کو بچانے کے لیے مشکلات کا سامنا کیا۔ ان کی زندگی میں برطانوی راج کے دوران انگریز افسران کی عدم اختیار کی وضاحت ہوئی، جو ان کے مطابق غلامی کی حقیقت کو ظاہر کرتی تھی۔ ان کی کتاب ایک موثر طریقے سے اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ حکومتی افسران کو اپنی انا کی تسکین کے لیے عوام کو ذلیل نہیں کرنا چاہئے۔

اس واقعہ سے ہمیں سیکھنے کو بہت کچھ ملتا ہے۔ ہمیں اپنی حکومتوں کو انسانیت اور احترام کے ساتھ عوام کی خدمت کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح، عوام کو بھی اپنے حقوق کا حفاظت کرنے کیلئے جدوجہد کرنی چاہئے اور ظلم اور ظلم کے خلاف اُٹھنا چاہئے۔

انجام سے یہ واضح ہوتا ہے کہ حکومتی افسران کو انگریزی راج کے دوران کی طرح عوام کی عزت اور حقوق کا احترام کرنا چاہئے، اور عوام کو بھی اپنے حقوق کے لیے اُٹھ کھڑا ہونا چاہئے۔