خطیب بغدادی کی کتاب "تاریخ بغداد" کی ایک دلچسپ کہانی سے آغاز کرتے ہوئے، ہمیں ایک مشہور علی بن جعد کی داستان سنائی گئی۔ اس داستان میں امام ابو حنیفہ کے معروف مرید قاضی ابو یوسف کے ذریعے ایک اہم مسلسل کی بیانی پیش کی گئی ہے، جو علی بن جعد کی زندگی کی بابت ایک اہم سبق فراہم کرتی ہے۔
اس داستان میں علی بن جعد کی ماں کی محنت، امام ابو حنیفہ کے درس خانے کی طلب، اور عقل کی آنکھ کی اہمیت کی بات کی گئی ہے۔ ماں کی محنت اور عزم نے علی بن جعد کو علم کی راہ میں قدم رکھنے کی قوت دی۔ امام ابو حنیفہ کی علمی روشنی نے ان کی زندگی میں نیا راہ دیا، جس نے انہیں ایک بہتر مستقبل کی طرف لے گیا۔
ماں کی محنت اور قوت ارادہ کی بنا پر علی بن جعد نے علم کی راہ میں کامیابی حاصل کی، جو ان کو خلیفہ ہارون الرشید کی محبوبیت اور احترام تک لے آیا۔ ان کی زندگی کا یہ اہم مرحلہ ان کی ماں کی عقلمندی اور علمی محنت کی وجہ سے ہوا۔
اس کہانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ علم کی راہ میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے عقلمندی، محنت، اور قوت ارادہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک شخص کو صرف ظاہری روپ میں گنوانے سے نہیں، بلکہ اُس کی اندرونی قابلیتوں اور عقلمندی کو دیکھ کر اُس کی قدر کی جاتی ہے۔
عقل کی آنکھ کا مطلب ہے کہ ہمیں صرف ظاہری روپ میں نہیں بلکہ معنوی حقائق میں دیکھنے کی صلاحیت حاصل کرنی چاہئے۔ ایک شخص کو اپنی عقلمندی کے ذریعے سمجھنا چاہئے، اور دوسروں کی محنت اور قابلیتوں کو قدر کرنا چاہئے۔
یہ کہانی ہمیں یہ بھی یاد دلاتی ہے کہ علم کی راہ میں کامیاب ہونے کے لئے ہمیں قوت ارادہ اور محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ، دوسروں کی محنت اور قابلیتوں کی قدر کرنا اور ان کی مدد کرنا بھی ایک اہم اخلاقی اصول ہے۔
ختم کرتے ہیں:
عقل کی آنکھ، جو ظاہری روپ سے بہتری کو دیکھنے کی صلاحیت دیتی ہے، ہمیں معنوی حقائق کو سمجھنے اور قدر کرنے کی سکھاتی ہے۔ علم کی راہ میں کامیاب ہونے کے لئے، عقلمندی، محنت، اور قوت ارادہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح، دوسروں کی
