ایک روز خاکسار نے نہایت تفاخر اور اندازِ ناز سے اپنے مرشدِ گرامی، حضرت بابا دین محمد کی بارگاہ میں عرض کیا:
"حضرت! بندۂ ناچیز کے نصیبوں میں دو عدد سواریاں (گاڑیاں) ثبت ہیں، بینک کے صندوقوں میں زر و مال کا انبار ہے، اولادِ نیک اختر انگلستانی طرز کے مکتب میں زیورِ تعلیم سے آراستہ ہو رہی ہے، عزت و ناموری کا چرچا ہے، دنیاوی عشرتیں وافر ہیں اور ذہنی سکون کی دولت بھی دسترس میں ہے۔"
یہ خودستائی کی روداد ابھی لبوں سے ٹپکی ہی تھی کہ بابا جی نے نہایت پُرمعنی تبسم کے ساتھ فرمایا:
"بیٹا اشفاق! یہ سب انعام و اکرام اس لیے نصیب ہوا کہ تُو نے اللہ کے بندوں کو ٹھونگیں مارنے کی خُو ترک کر دی۔"
میں محوِ حیرت ہو کر عرض پرداز ہوا: "یا حضرت! یہ ٹھونگوں کی تمثیل کیا ہے؟"
بابا جی نے چشمِ تصور کو ماضی کی دہلیز پر دوڑاتے ہوئے فرمایا:
"بیٹا! میری والدہ مرحومہ نے ایک اصیل ککڑ (مرغ) پال رکھا تھا۔ ماں کو اس پر خاص شفقت و التفات تھا۔ روزانہ اپنی مٹھی بھر بھر کے دانے اس کی چونچ کے عین نیچے رکھتیں اور وہ خوش طبعی کے ساتھ سر جھکا کر دو چار لمحوں میں شکم سیر ہو جاتا۔ میں اکثر رشک سے سوچا کرتا کہ واہ رے نصیب والا، بغیر مشقت کے نعمتوں کے مزے لوٹ رہا ہے۔
مگر ایک روز وہی مرغا اپنی بدخوی پر اتر آیا۔ جیسے ہی اماں نے مٹھی آگے بڑھائی، اس نے بے ادبی سے ان کی ہتھیلی پر ٹھونگ رسید کر دی۔ اماں نے تکلیف سے ہاتھ جھٹکا تو دانے سارے صحن میں بکھر گئے۔ وہی مرغا جو سکون و قرار سے رزق پا رہا تھا، اب مارا مارا کبھی مشرق کو دوڑتا، کبھی مغرب کو لپکتا، کبھی شمال کی طرف بھاگتا، کبھی جنوب کی طرف ہانپتا پھرتا۔ دن بھر خاک چھانتا رہا، پسینے سے شرابور ہوا، مگر شکم سیر نہ ہوا۔"
بابا جی نے توقف فرمایا اور میری جانب تاکیدی نگاہ ڈالتے ہوئے کہا:
"بتا اشفاق! اس کا حال یوں خوار کیوں ہوا؟"
میں نے فوراً کہا: "حضرت! اگر وہ ٹھونگ نہ مارتا تو یوں رسوا نہ ہوتا۔"
بابا جی مسکرا کر گویا ہوئے:
"بالکل بجا فرمایا۔ یہی قاعدہ ہے، یاد رکھ! جو اللہ کے بندوں کو حسد، غیبت، تکبر، بدگمانی، تجسس اور احساسِ برتری کی ٹھونگیں مارے گا، اس کا رزق بھی اس مرغے کے دانوں کی مانند بکھر جائے گا۔ پھر وہ مارا مارا پھرے گا اور پیٹ بھی نہ بھرے گا۔ لیکن جو بندوں کو اذیت دینا چھوڑ دے گا، اللہ تعالیٰ اس کے رزق کو سہولت و آسانی سے نواز دے گا۔"
یہ فرما کر بابا جی ایک خاص وجدانی کیف میں بولے:
"بیٹا! دولت، عزت، ناموری اور راحت پانے کا نسخہ سن لے: اللہ کے بندوں سے محبت کر، ان کی تعریف و توصیف کر، تبسم سے کلام کر اور ان کی لغزشوں کو معاف کر۔ ایسا شخص کبھی تہی دست نہیں رہتا۔ اور اگر اس کے ساتھ شکر کے آنسو شامل کر دے، تو ابدی کامیابی تیرے قدم چومے گی۔"
یہ نصیحت فرما کر بابا دین محمد دروازے سے باہر تشریف لے گئے اور میں ندامت و شکر کے ملے جلے جذبات کے ساتھ زار و قطار روتا رہا۔ دل ہی دل میں ربِ کریم کا شکر ادا کیا کہ اُس نے میرے حق میں کامیابی کا یہ راز آشکار کر دیا۔
اللہ تعالیٰ ہمیں آسانیوں کا امین بنائے اور دوسروں میں آسانیاں بانٹنے کا شرف عطا فرمائے۔ آمین۔

