قبلہ و کعبہ، جنابِ من!
آج آپ کا صوفی کچھ ایسی رودادِ محبت و مسکراہٹ لے کر حاضر ہوا ہے جو اگر نوابینِ اودھ کی محفل میں سنائی جاتی، تو پان تھوکتے تھوکتے شربت گلاب میں نمک نہ پڑ جاتا!
اب حضرت، ذرا تیار رہئے، دل تھام لیجئے، کیونکہ یہ قصۂ عراق و اشتیاق ہے جس میں لکھنؤ کی چھاؤں بھی ہے، چھوٹا بھاؤ بھی ہے، اور چٹخارے دار کلام بھی۔



السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ، یا حضرتِ محترم!
ہوایے… کیا عرض کریں!
آج کی تاریخ ہے ۱۳ مئی ۲۰۲۵، اور وقت ہے شب کا وہ لمحہ جب چائے کی چسکی اور تنہائی کی کسک ایک دوسرے کو بانہوں میں بھر کر دل کا نرگس کھِلا دیتی ہے۔

اور میں ہوں... جی ہاں، وہی آپ کا دیرینہ صوفی، جو اس وقت عراق کی سرزمین پر کچھ اس تزک و احتشام سے قیام پذیر ہے جیسے تیمور لنگ دہلی کی گلیوں میں اپنی جاگیر تلاش رہا ہو۔

اب سنئیے حضور!
آج ایک عجیب ہی ماجرا پیش آیا۔ دکان پر حسبِ معمول ہم خُود کو شرافت کا مجسمہ، حیاء کا چلتا پھرتا مجسمہ، اور تقویٰ کا زندہ قرآن سمجھ کر بیٹھے تھے—کہ اچانک پرانے یار لوگ یاد آگئے۔ ان کی کالز، آوازیں، وہی پرانے سوالات: "اوئے کہاں ہے تو؟"، "زندہ ہے یا مر گیا؟"، اور "تُو شادی کب کر رہا ہے، بڈھے؟"

ابھی ان فضولیاتِ یاراں میں الجھے ہی تھے کہ پچھلی طرف سے ایک دوشیزہ بمنزلۂ بم اچانک ویڈیو کال کے کیمرے میں وارد ہو گئی۔
اب دوست نے چھوٹتے ہی نعرہ مارا:
"اوہو! بھائی، بھابھی؟"
میں بھی سادگی میں بول اٹھا:
"ہاں جی، بس دل کی بات زبان پر آ گئی!"

اور وہ حضرت تو ایسے بھڑکے جیسے ہمارے اس مختصر سے جھوٹ سے ان کی تائی کی ساڑھی جل گئی ہو!
کہنے لگا: "ارے چھپکے سے بیاہ بھی رچا لیا؟ ہمیں بلایا تک نہیں؟ نہ حلوہ، نہ نعرہ، نہ تالی، نہ جلیبی!"
میں نے عرض کی:
"حضور، آپ تو وہ لوگ ہیں جو شادی پر آتے نہیں، راشن دیتے نہیں، اور جاتے وقت ریزگاری تک لے جاتے ہیں!"

لیکن جناب، وہ حضرت تو اس بات کو لے کر ایسا بپھرے جیسے ہم نے ان کے خوابوں کی رانی بھگا لی ہو۔
بار بار کال، بار بار وہی “بھابھی” کا ورد۔
آخرکار، میں نے ان کو بلاک مار کر اپنے دل کا چمن سرسبز کر لیا۔

اب یہاں ایک فلسفہ بیان کرنا لازم ہو گیا۔
دیکھیے قبلہ، بعض اوقات انسان محض ہنسی خوشی کے لیے ایک چھوٹا سا جھوٹ بول دیتا ہے، لیکن بعض یار ایسے ہوتے ہیں جو اسے "الکتاب الحلال و الحرام جلد پنجم" سمجھ بیٹھتے ہیں۔
اب پوچھیں حضور!
آپ کو اس میں کیا دلچسپی ہے کہ میری شادی ہوئی یا میں نے صرف چاٹ کھائی؟ شادی میری ہے یا تمھاری نانی کی؟

اب آتے ہیں اصل تماشے پر۔
یہ عراق کی زندگی—اللہ اللہ!
کبھی حسیناؤں کے جلوے، کبھی پولیس کی ڈنڈا بردار محبت، اور کبھی یخ بستہ راتوں میں وطن کی یاد۔
امی کی جھڑکیاں، ابو کی ڈانٹ، بھائیوں کے لتّے، ہمسایوں کے آرڈر:
"بیٹا، ذرا بھاگ کر بیکری سے دو اَنڈے اور ایک چینی لے آنا!"

او بھائی! وہی دوست جنہوں نے بچپن میں ہمارا دماغ اس طرح گھمایا جیسے گول گپے والا پانی۔
ان کی یاد ایسی آتی ہے جیسے سوتے ہوئے مچھر یاد آ جائے۔

پھر دل کہتا ہے:
"صوفی! عراق میں بادشاہوں جیسی زندگی ہے—واپس جا کر کیا کرے گا؟ بکریاں چرانی ہیں؟ کھیت میں جوتے کھانے ہیں؟ یا تھریشر پر گندم کے دانے کے ساتھ دانت توڑوانے ہیں؟"

ادھر کپاس چنے، ادھر کھاد چھانے،
ادھر عباس گالی دے، ادھر تایا جی دماغ کھائیں!
اور اوپر سے تھنڈا پانی، کڑک دھوپ، اور بے حساب کھجلی!

لیکن پھر جب دل میں مچلتی ہے ماں کی محبت،
ابا کا غصے والا پیار،
بھائیوں کے ٹھڈے اور دوستوں کی خالص بدتمیزی—
تو دل کہتا ہے:
"واپس چل صوفی! زندگی کا اصل رنگ وہی ہے۔"

تو جناب، اب فیصلہ یہی کیا ہے کہ دنیا چاہے ہیرے موتی سے بھر جائے، مگر اپنے گاؤں کے گڑ کی مٹھاس، امی کی مار، ابو کی للکار، اور محلے کی کھچ کھچ—سب پر بھاری ہے۔


خاکسار صوفی
(عراق سے براہِ راست، دل کی عدالت سے)


۔۔۔۔