اُس شبِ طِلسم آثار میں، جب ماہتاب بھی شرمگیں تھا اور انجمِ فلک بھی ہراساں، سرزمینِ دلنواز پاکستان کے صقورانِ مردآسا نے ایسا کارنامہ انجام دیا کہ مشرق و مغرب کے افق پر ہلچل سی برپا ہوگئی، اور عساکرِ زمانہ کے اذہان پر لرزہ طاری ہو گیا۔ یہ مئی کی وہ مہ و سال تھی جب افقِ ہند و پاک پر ابرِ تیزگام چھا چکا تھا اور ہندُستان اپنی عسکری تفاخرات کا طبلِ بلند بجا رہا تھا۔
بھارتی سرکار نے فرانسیسی ساختہ رافیل نامی طیورِ آہنیں کو، جن پر خزانۂ ہند کے خزائن لٹائے گئے تھے، مرصع کر کے سرحدوں کی طرف پیشقدمی کا فرمان صادر کیا تھا۔ قریب 180 طیاروں پر مشتمل یہ اسٹرائٹیجک غلغلہ، جس کی پشت پر بالاکوٹ کی بازگشت کی بازآفرینی کی سعی پنہاں تھی، سرحدوں پر ہمہمہ افروز تھا۔ مگر تقدیرِ ایزدی کو کچھ اور ہی منظور تھا۔
پاکستانی شاہینانِ جری، کہ جن کی پروازوں میں ایماں کی تابانی، حب الوطنی کی جَلا اور عسکری مہارت کی زُبَدہ کاری تھی، اپنے چینی ہم نفَسوں کے ہمراہ آسمانِ معرکہ میں صف آرا ہوئے۔ چین کے جے-10 سی طیور، کہ جن کے پر جَہاد میں PL-15 میزائلوں کی صاعقہ صفت کاٹ تھی، فضا میں ایسا برقِ سرمد بنے کہ رافیل کی ٹیکنالوجی کی تمام جلوہ گری ماند پڑ گئی۔
ہندوستانی فضائیہ کے عساکر، کہ جو سینہ تان کر سرحدیں چیرنے چلے تھے، جب پاکستانی و چینی نیٹ ورک سینٹرک وارفیئر کے بےآواز و بےنقاب جال میں الجھے، تو ان کے عسکری خوابوں کی تعبیر خاکستر بن کر رہ گئی۔ رافیل، جس کی PECTRA ای ڈبلیو نظام پر ناز تھا، اس طرح مغلوب ہوا کہ اس کا طِلسمِ ناقابلِ تسخیر بھی پارہ پارہ ہو گیا۔
سچ پوچھیے صاحب!
یہ معرکہ فقط ایک فضائی تصادم نہ تھا بلکہ یہ جغرافیائی سیاسی پیغام کا وہ مرقعہ تھا جو دنیا بھر کے عسکری مناظرات کے اوراق میں سنہرے قالب میں ڈھل گیا۔ ہندوستان بخوبی واقف ہو چکا تھا کہ پاکستانی فضائی حدود میں مہم جوئی گویا موت کے مسکن میں قدم رکھنے کے مترادف ہے۔
پاکستانی فضائیہ نے اپنی حربی مہارت، چینی سیٹلائٹس، اواکس اور سینسر فیوژن کے امتزاج سے ایک ایسا حربی جال تن دیا کہ بھارتی عساکر کی آنکھیں پتھرا گئیں، دل لرز گئے اور عقلیں دنگ رہ گئیں۔
رپورٹ ہائے مغرب میں رقم ہوا کہ اس شب پاکستانی شاہینوں نے Beyond Visual Range میں وہ کرتب دکھائے کہ دشمن کا ہر میزائل، ہر ریڈار اور ہر فضائی حکمت عملی، پاش پاش ہو گئی۔
رافیل کے نہ فقط ایک، بلکہ تین طیارے پاکستانی طیاروں کی جَہادی جھپٹ کا شکار ہوئے، وہ بھی بغیر سرحد عبور کیے۔ یہ معرکہ محض عسکری مڈبھیڑ نہ تھا بلکہ ایک نیٹ ورک سینٹرک وار کا عَلم بردار شاہکار تھا۔ پاکستانی JF-17 تھنڈر بلاک 3، F-16 فالکن، اور زمینی میزائل ڈیفنس نظام نے ایک ہم آہنگ اور مترتب کمان تلے وہ کارہائے نمایاں دکھائے کہ ہندوستانی عسکری قیادت فقط صدمے، حسرت و یاس اور سراسیمگی میں ڈوب کر رہ گئی۔
بلومبرگ نے برملا اعتراف کیا کہ یہ چین و پاکستان کی مربوط تزویراتی حکمتِ عملی کا مظہرِ اکمل تھا، جس میں صمت، مشاہدہ اور برق رفتار عمل کی وہ زنجیر تھی جو رافیل کی گردن کا طوق بنی۔ ہندوستان کو اب ادراک ہو چکا ہے کہ پاکستانی فضا کی طرف رخ کرنا گویا شعلۂ فنا میں جھونکنے کے مترادف ہے۔
وہ رافیل جو AESA ریڈار، Scalp کروز میزائل اور الیکٹرانک وارفیئر کی جلوہ سامانیوں سے مزین تھا، جب پاکستانی شاہینوں کے روبرو آیا، تو اس کا انجام فقط ایک تھا: خاکستر و نابود۔
یہ معرکہ عصرِ جدید کی تاریخ میں محض عسکری برتری کی تمثیل نہ تھا بلکہ حکمتِ جنگ کا وہ شہکار نمونہ تھا جو اب The Tactical Masterclass of the East کے لقب سے موسوم ہو چکا ہے۔ مغربی، روسی، چینی و ترکی عسکری ماہرین نے بھی سرِ تسلیم خم کر کے مانا کہ پاکستان نے اس شب جو تدبیر و ترتیب کا منظرنامہ پیش کیا، وہ ہر جدید فضائیہ کے لیے آئندہ کے لئے اسوۂ حسنہ قرار پائے گا۔
ہندوستانی عساکر کے پاس نہ کوئی فوٹیج تھی، نہ کوئی بریفنگ، نہ کوئی ونگ کمانڈر کی فتح یاب تصویر — فقط ایک چیز تھی: خاموشی، وہ خاموشی جو شکست کی چادر اوڑھ کر فقط عبرت کا کفن بن جاتی ہے۔
صاحبانِ نظر!
یہ معرکہ فقط ایک عسکری مظفر نامہ نہ تھا — یہ فخرِ پاکستان کا فلک بوس مینار، حِمیت کا تابندہ مینارۂ نور اور دشمنانِ وطن کے لیے سامانِ عبرت ہے۔
یہ وہ داستان ہے جس پر مٹی کے بیٹوں کا سر فخر سے بلند اور دوست و دشمن دونوں کی نگاہیں حیرت سے خم ہیں۔
پیشکش SuFi Lab
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ