کہیے حضور،
       آج سےتیس چالیس سال پہلے،
                وہ بھی کیا دن تھے،
                            جب دیہی زندگی سادگی و کفایت شعاری کی تصویر ہوا کرتی تھی۔ لباس میں بھی وہی کیفیت جھلکتی تھی۔
شلوار — جسے دیہات میں "سُتھنڑ" کے نام سے پکارا جاتا تھا، محض ضرورتاً زیبِ تن کی جاتی، ورنہ روزمرہ کے معمولات میں دھوتی و چادر ہی کا رواج عام تھا۔ اور اگر کبھی سرکاری ملازمت کی مجبوری نے شلوار پہننے پر مجبور کر بھی دیا، تو جیسے ہی انسان اپنے آشیانے کو لوٹتا، پہلا کام یہی ہوتا کہ اس نامراد لباس سے جان چھڑائی جائے۔

یوں سمجھ لیجیے، شلوار کا مقام بھی وہی تھا جو مرزا یوسفی کے بقول نکٹائی کا ہے — مرشد فرمایا کرتے تھے کہ ٹائی کا واحد فائدہ یہی ہے کہ جب اسے اتارا جائے تو دل کو قرار نصیب ہوتا ہے۔

دیہاتی اسکولوں میں، سب سے زیادہ نالاں اگر کوئی تھا تو وہ پرائمری اسکول کے اساتذہ کرام تھے۔ سرکار کی جانب سے سخت ہدایات تھیں کہ دورانِ ڈیوٹی شلوار پہننا لازم ہے۔ اب سرکاری احکام کی مجبوری وہی جان سکتا ہے جس نے اس بندھن کا مزا چکھا ہو۔

مگر جیسا کہ اہلِ تدبیر فرمایا کرتے ہیں: "جہاں ضرورت، وہاں ایجاد!" چنانچہ اساتذہ نے ایک نرالا حل دریافت فرمایا — ایک عدد شلوار ناڑے سمیت کمرہ اساتذہ میں کیل پر ٹانگ دی جاتی۔ دور سے اگر افسر صاحب کی گام زنی محسوس ہوتی، تو استاد محترم فوراً کمرے کی جانب لپکتے اور دھوتی سے شلوار کا تبادلہ فرماتے۔

ہمارے ایک مہربان استاد بھی اسی طریقِ حکمت پر عمل پیرا تھے۔ ایک سفید شلوار، بڑے اہتمام سے، رجسٹروں کی الماری کے پہلو میں کیل پر آویزاں رہتی۔ مگر شومئی قسمت، کئی ماہ تک کسی افسر کو معائنہ کا خیال تک نہ آیا۔ نتیجہ یہ کہ شلوار ہر قسم کی مشقت سے محفوظ رہی۔

گرمیوں کی چھٹیاں قریب تھیں کہ ایک روز ایک نہایت چست افسر کو اچانک فرض شناسی کا دورہ پڑا۔ چھڑی لہراتے اسکول تشریف لے آئے۔ استاد محترم نے افسر صاحب کو داخل ہوتے دیکھا، تو ادب و ہوش کے تقاضے نبھاتے ہوئے لپک کر کمرہ معلمین میں پہنچے اور جلدی جلدی شلوار زیبِ تن کرنے لگے۔

مگر اے نازنین! جیسے ہی دونوں ٹانگیں شلوار میں داخل ہوئیں اور ناڑا باندھنے کی نوبت آئی، تو شلوار کے اندر کہرام مچ گیا۔ معلوم ہوا کہ بھڑوں کی ایک پوری قوم اسے "غیر آباد سرکاری زمین" سمجھ کر وہاں قیام پذیر ہو چکی تھی اور اب اپنی ریاست کے خلاف اس دخل اندازی کو قبول کرنے سے یکسر انکاری تھی۔

آگے جو کچھ پیش آیا، اسے راقم الحروف کی خامہ فرسائی میں اظہار کی تاب نہیں ،
تخیل کی پرواز کو آزاد کیجیے اور خود ہی اس برپا ہونے والے طوفانِ کا اندازہ لگائیے